According to the Quran-e-Karim, all mankind are equal(تمام انسان برابر ہیں),& that Allah does not look to our race or color, but to our piety and righteous actions.[49:13]

Awam Encyclopedia

Encyclopedia about Castes & Tribes in Urdu and English, Castes and Tribes History, People, Customs, Culture and all abouts in Urdu and English.


سید سالار مسعود غازی کی پیدایش 15 فروری 1015ءبمطابق 21 رجب 405ھ میں اجمیرمیں ہوئی۔ سید سالار مسعود غازی سلطان محمود غزنوی کے بھانجے تھے۔ آپ کے والد کا نام سیدسالار ساہو غازی اور والدہ کا نام سترے معلٰا تھا جو سلطان محمود غزنوی کی بہن تھیں۔ سیدسالار ساہو غازی محمد بن حنفیہ حضرت علیؓ کی نسل سے تھے۔ سالار مسعود اسلام کی تبلیغ کے لیے جنوبی ایشیا کے لیے گیارھویں صدی کی ابتدا میں اپنے چچا سالارسیف الدین اور استاد سید ابراہیم مشہدی بارہ ہزاری (سلطان محمود غزنوی کے سالار اعظم) کے ساتھ آئے۔

خاندان
سالارمسعودغازی قطب شاہی علوی اعوان قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ کتاب نسب قریش عربی تالیف لابی عبد اللہ مصعب بن عبد اللہ بن المصعب بن زبیرجو156ہجری میں پیداہوئے اور236ہجری میں وفات پائی کے صفحہ77پرلکھتے ہیں وولدعون بن علی بن محمد بن علی بن ابی طالب محمداً؛ رقیہ و علیہ بنی عون۔ منبع الانساب فارسی تالیف سید معین الحق جھونسوی فارسی مخطوطہ کا اردو ترجمہ علامہ ڈاکٹرارشاد حسین ساحل شاہسرامی علی گڑھ انڈیا نے 2012ء میں کیا ہے کے صفحہ363پر لکھتے ہیں:۔ حضرت شاہ ابوالقاسم محمدحنیف بن علی مرتضیٰ بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہما محمدحنفیہ کےنام سے مشہورہیں اآپ کی ولادت 16ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی ۔ عمر مبارک پنسٹھ سال تھی 81ہجری میں عبدالملک بن مروان کے عہدحکومت میں پیر کے دن وصال ہواکتابیوں کا ایک گرو دعویٰ کرتا ہے کہ آپ قریب قیامت ظہورفرمائیں گے اسی طرح کی اور بھی بعض بے سروپا حکایات اآپ سے منسوب ہیں۔ اآپ کے تین صاحبزادے 1-ابوھاشم 2۔علی عبدالمنان۔3۔جعفر اآپ کی چودھ صاحبزادے اور دس صاحبزادیاں تھیں لیکن نسل تین صاحبزادوں سے چلی: ابوہاشم جعفر علی قدست اسراہم۔حضرت کا وصال مدینہ طیبہ یا طائف میں ھوا۔ حضرت جعفر کے ایک صاحبزادے عبد اللہ تھے۔ حضرت علی عبدالمنان کے ایک صاحبزادے عون عرف قطب شاہ غازی تھے۔حضرت عون عرف قطب شاہ غازی کے ایک صاحبزادے محمداآصف غازی تھے اور محمداآصف غازی کے ایک صاحبزادے شاہ علی غازی تھے شاہ علی غازی دو صاحبزادشاہ محمدغازی اور شاہ احمدغازی(بحرلانساب عربی اور تہذیب الانساب عربی کے مطابق سات صاحبزادے محمد،احمد،علی،موسیٰ،عیسیٰ، حسن و حسین)تھے شاہ احمدغازی نے سبزاوارکو اپنا وطن بنایا چنانچہ سادات سبزواری آپ ہی کی نسل سے ہیں اسی طرح سید حامد خان سبزاواری بھی شاہ احمدغازی کی نسل سے ہیں جن کا مزارمبارک قلعہ مانک پور میں ہے۔ حجرت سید احمدغازی کی اولاد بہت ہے۔سید شاہ احمدغازی کے بڑے بھائی سید شاہ محمدغازی کے ایک صاحبزادے سید طیب غازی ہیں جن کے ایک صاحبزادے سئد طاہر غازی ہیں سید طاہرغازی کے ایک صاحبزادے سید عطااللہ غازی اور ان کے صاحبزادے سیدساھوغازی ہیں(مرات مسعودی فارسی تالیف عبدالرحمن چشتی 1037ھ ،مرات الاسرار فارسی 1065ھ اور تاریخ حیدری و تحقیق الاعوان کے مطابق آپ عطااللہ غازی کے تین صاحبزادے سالارساھوغازی، سالارقطب حیدرالمعروف قطب شاہ و سالارسیف الدین غازی تھے)سید ،(محمود)ساھو غازی کی شادی سلطان محمودغزنوی کی ہمشیرہ کے ساتھ ہوئی تھی ان سےایک صاحبزادے سید سعید الدین سالارمسعود غازی ہیں۔۔آپ سادات علوی سے ہیں ۔ اکثرسادات حضرت سید سالارمسعود غازی کے ہمراہ ہندوستان تشریف لائے ہیں۔ مندرج دغازی کاخاندان: ہ بالا کتب کے علاوہ دیگر بے شمار کتب میں سید سالارمسعودغازی قطب شاہی علوی کاتذکرہ موجود ہے۔ قدیم کتاب نسب قریش عربی میں بنی عون تحری رہے اور عون ، اعوان کی واحدہے اور اس کی مزید تصدیق منبع الانساب فارسی سے عون قطب شاہ غازی بن علی عبدالمنان سے ہوتی ہے کہ سیدسالارمسعودغازی شہید 424ہجری کا نسبی تعلق قطب شاہی علوی اعوان قبیلہ سے ہے آپ کامزارمبارک بہرائچ میں ہے سلطان فیروزشاہ تغلق نے آپ کا روضہ مبارک تعمیر کروایاتھا۔

آپ کی آمد
انہوں نے اپنے ماموں سلطان محمود غزنوی کے ساتھ ہندوستان آئے، تب سالار مسعود (1026 عیسوی میں) کی عمر 11سال کی تھی۔ اپنے ماموں کی سومناتھ پر فتح کے بعد غزنی کو واپس ہوئے۔ لیکن سالار مسعود ان کے عزائم کو آگے بڑھانے کے لیے ہندوستان ہی میں آباد ہوئے۔ جن کا اہم مقصد تبلیغ اور اشاعتِ دین تھا۔

شمالی بھارت کا رخ
سالار مسعود مئی 1031 ء میں بھارت پر حملہ کر دو جرنیلوں میر حسین عرب اور امیر واجد جعفر کے ہمراہ 50،000 گھوڑوں کے ساتھ 100،000 سے زائد سپاہیوں کی ایک فوج کے ساتھ بھارت میں داخل ہوئے۔ انہوں نے شمالی بھارت میں پر یلغار کیا اور ان کے چچا سالار سیف الدین، میر بختیار، میر سید عزیز الدین اور ملک ب رہان الدین اور ان کی فوجوں کو ان کے ہمراہ کیا۔

میرٹھ، قنوج اور ملیح آباد گذر شمالی بھارت کے میدانی علاقوں میں تیز چھاپہ کے بعد اور وہ ستریخ پہنچے۔ وہ جن مقامی بادشاہوں کے ساتھ دوستی کر معاہدے کرکے میرٹھ اور اجین کو کوچ کیا۔ بعد میں ساکیت لے جایا گیا۔ سالار رجب اور سالار سیف الدین بہرائچ گئے۔ امیر حسن عرب ماہونا کو گئے، ملک فضل وارانسی لیا۔ سلطان سلاطین اور میر، میر بختیار Kannor جنوب گئے اور وہاں میر بختیار مقامی فوج کے ساتھ ایک لڑائی کے دوران ہلاک ہو گیا تھا۔ سید ساہو قرہ اور مانک پور کو گئے۔ مانک پور میں قرہ اور قطب حیدر کے انچارج ملک عبد اللہ چھوڑنا۔ سیدعزیز الدین ہردوئ خلاف بھیجا، لیکن گومتی کے کنارے پر Gگوپامو میں جنگ میں گر گئی تھی۔ ان کے قریبی ساتھیوں اور اس طرح کے جلال الدین بخاری اور سید ابراہیم باڑہ ہزاری کے طور پر رشتہ داروں کی قبروں بھی ریواڑی میں واقع ہیں۔

شہادت
24 رجب المرجب 424ھ کو بہرائچ میں جام شہادت نوش کیا

’’انسانی فیصلہ کی طاقت اور کرامت کی ایسی مثالیں ہیں ،جن کا باور کرنا مشکل ہے،اس کی ایک شہادت آپ کا شہر(بہرائچ) پیش کرتا ہے کہ خدا کا ایک بندہ(سید سالار مسعود غازیؒ)غزنی افغانستان سے رفقاء کی ایک چھوٹی سی جماعت کے ساتھ اس ملک میں جو ایک تحتی برا عظم ہے،داخل ہوتا ہے،وہ توحید کا پیغام پہنچانے اور انسانوں کو انسانیت کا سبق سکھانے کے لئے سر ہتھیلی پر رکھ کر آئے ،عقل کا فیصلہ صریحاً اس کے خلاف تھا،کوئی آدمی صحیح الحواس ہونے کے ساتھ اس کی ہمت نہیں کر سکتا تھا کہ اتنے لمبے چوڑے ملک میں ساتھیو ں کی اتنی تھوڑی تعداد کے ساتھ قدم رکھے اور یہ اس وقت کی بات ہے جب سفر اور ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل و حرکت کی یہ آسانیاں نہیں تھیں،لیکن وہ اس دور دراز مقام سے منزلوں پر منزلیں طے کرتا ہوا ،راستہ میں اپنے سفر کی نشانیاں چھوڑتا ہوا اس خطہ میں آکر اپنے کام کو ختم کر دیتا ہے یا اس سے اس کام کو ختم کر ا دیا جاتا ہے۔آج وہ یہاں آسود ئہ خاک ہے،ایک فر د کے فیصلہ کی طاقت کا یہ ایسا روشن ثبوت ہے جس کی مثال دور دور تک نہیں ملتی۔‘‘(۱)

محمد انصاراللہ اپنی تصنیف کے باب اضلاع مشرقی میں لکھتے ہیں:’’ از اہل اسلام اول کسے کہ در یں ملک فرماں رواشد حضرت سالار مسعودغازیؒ بودند کہ بعد فتح ایں ملک تادبارِ بنارس و جونپور خطبہ و سکہ بہ نام سلطان محمود غزنوی خالِ خود رواج داند۔‘‘(۲)

ترجمہ اردو از سید ظفر احسن بہرائچی(سجادہ نشین خانقاہ نعیمیہ بہرائچ)

’’اہل اسلام میں سے اول جو شخص اس ملک کا فرمارواں ہوا وہ حضرت سالار مسعود غازیؒتھے،جنہوں نے اس ملک کو فتح کے بعد بنارس اور جونپور تک کے شہروں میں اپنے ماموں سلطان محمود غزنوی کے نام کا خطبہ و سکہ رائج کیا۔‘‘

سالار مسعود غازیؒ کے والد سترکھ (بارہ بنکی) میں مقیم تھے۔ وہیں انھوں نے وفات پائی گو یا ان مفتوحہ علاقہ کا صدر مقام وہی تھا۔ان بزرگ کی وفات کے بعد بہرائچ تک کے مقامی باشندوں نے بغاوت کی۔اسی جنگ کی وجہ سے اس مقام کا نام بھڑائچ(یعنی خاص لڑائی ) پڑ گیا تھا۔

’توابع آں حضرت(سالار غازیؒ)کہ تا بنارس متفرق بودند یک یک بجاہائے خود شہید شدند دباز حکومت ایں دیاربہ راجہ ہائے منتقل شد۔ ‘(۳)

ترجمہ اردو از سید ظفر احسن بہرائچی

’’حضرت سالارغازیؒ کے رفقاء جوکہ بنارس تک پھیلے ہوئے تھیاپنی اپنی جگہ ایک ایک کر کے شہید ہو گئے اور پھر اس شہر کی حکومت راجگان کو منتقل ہو گئی۔‘‘

ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامہ میں بہرائچ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’بہرائچ ایک خوب صورت شہر ہے جو دریائے سرجو کے کنارے واقع ہے سرجو ایک بڑا دریا ہے جو اکڑ اپنے کنارے گراتا رہتا ہے۔ بادشاہ شیخ سالار(سید سالار مسعود غازیؒ) کی قبر کی زیارت کے لئے دریا پار گیا۔شیخ سالارؒ نے اس نواح کے اکڑ ملک فتح کیے تھے۔اور ان کی بابت عجیب عجیب باتیں مشہور ہیں۔‘‘(۴)
سید سالار مسعود غازی کا مقبرہ
بعد ازاں آپ کا معتقد سلطان فیروز شاہ تغلق نے آپ کا مقبرہ بنوایا۔ آج بھی اس درگاہ میں سالار مسعود کے دور کے ہتھیاروں کو نمائش کو طور پر رکھا دیکھا جاسکتا ہے۔

حوالہ جات:

(۱)خطبۂ صدارات بہرائچ،مطبوعہ ۱۹۸۲ء،ص۳

(۲)تاریخ ادب اردو جلد ۱۶،مطبوعہ ۲۰۱۶ء، ص۳۱۵

(۳)تاریخ ادب اردو جلد ۱۶،مطبوعہ ۲۰۱۶ء، ص۳۱۵

(۴) عجائب الاسفار سفرنامہ ابن بطوطہ، مطبوعہ ۱۹۱۳ء، ص۱۹۰

(۵) نورالعلوم کے درخشندہ ستارے، مطبوعہ ۲۰۱۱ء، ص ۱۸

(۶)بہرائچ گز یٹیئر، مطبو عہ، ۱۹۲۱ء، ص۱۱۵

(۷)سلطان الشہداء حضرت سید سالار مسعود غازیؒ(مطبوعہ ۲۰۱۱ء، ص ۴۸؍۴۹)

(۸)بہرائچ گز یٹیئر مطبو عہ ،۱۹۲۱ء، ص ۱۲۰

(۹)بہرائچ گز یٹیئر مطبو عہ ۱۹۱۲ء،ص ۱۲۴

(۱۰)سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات،مطبوعہ ۱۹۵۸ء، ص ۴۱۴

(۱۱) سفر نامہ ابن بطوطہ حصہ دوم ،مطبوعہ ،۱۹۸۶ء ،ص ۱۳۶؍۱۳۷

(۱۲)سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات، مطبوعہ ۱۹۵۸ء ص ۴۶۶

(۱۳)بہرائچ گز یٹیئر مطبو عہ ، ۱۹۱۲ء، ص ۱۲۴

(۱۴) منبع الانساب،ص ۳۴۸


قطب شاہی علوی کھوکھر    میاں محمد یعقوب علوی بیروٹوی    دیوال    ڈھرنال    اعوان پورہ    اللہ یار خان    یوسف جبریل    ڈھوک اعوان    ٹی سی ایس کورئیر    Awan and Other Tribes Population    سلطان بازید محمد    چھنی تاجہ ریحان    بیروٹ    کھودے    غلام مرتضٰی ملک شہید    حکیم احمد الدین    بھرپور    واصف علی واصف    خواجہ شمس الدین سیالوی    ابوالفضل کرم الدین دبیر    حافظ غلام احمد    حافظ محمد مقبول الرسول للہی    قاضی شمس الدین    حضرت سلطان باہو    بابر افتخار    دیگر مسلم قبائل    غلام نبی للہی    اولمپیئن ملک محمد نواز    میجر جنرل تجمل حسین ملک    مل اعوان    مکھڈ شریف    محمد حمید شاہد    عبدالستار علوی    خواجہ زین الدین    شور کوٹ    ملک منور خان نامزد نشان حیدر    جبی    غلام اللہ خان    محمد جمال الدین ملتانی    حفیظ ماہی    محمد یار فریدی    مرزا عبدالقادر بیدل    غازی سید سالار مسعود    خواجہ امیر احمد بسالوی    محمد اکرم نشان حیدر    سلطان غلام دستگیر فخر کشمیر    کندوال    گنگ اعوان    خادم حسین رضوی    احسان الحق قادری    گنگال اعوان    سید حامد سبزواری    ردھانی    ائیر مارشل نور خان    اعوان دوسروں کے نکتہ نظر سے    مرزا مظہر جان جاناں    تریڑ اعوان برادری    بھمب اعوان    یاسین ملک    بھون    سعد حسین رضوی    ملک میاں محمد    ملک المدرسین عطا محمد بندیالوی    دامن مہاڑ    قاضی سلطان محمود    قاضی نور عالم    تاریخ اعوان    حزیر اعوان    خواجہ فضل الدین کلیامی    بھاگوال    حافظ دوست محمد للہی    چاہ اگرال    ملک پور    اعوان شریف    بلال آباد    ڈیرۂ اعوان    نور سلطان القادری    سلطان ریاض الحسن    مجوکہ    میاں صاحب قصہ خوانی    ڈھوک بدہال    مرجان اعوان    ڈھوک بازا    راستی بی بی    انور بیگ اعوان    خواجہ احمد خان میروی    پنڈوال    شیر محمد اعوان    محمد علی مکھڈوی    مشعال ملک    اوچھالی    سیلواں    موڑہ گنگال    شیر شاہ اعوان وکٹوریہ کراس    اعوان کڑی    سلوئی شریف    غازی ممتاز قادری    ڈھوک گنگال    اعوان جینیاتی تھیوری        اعوان کلاں    میاں محمد جیون    گھلی اعوان    خواجہ شمس الدین سید پوری    محمد عبیداللہ علوی    احمد ندیم قاسمی    سولنگی اعوان