According to the Quran-e-Karim, all mankind are equal(تمام انسان برابر ہیں),& that Allah does not look to our race or color, but to our piety and righteous actions.[49:13]

Awam Encyclopedia

Encyclopedia about Castes & Tribes in Urdu and English, Castes and Tribes History, People, Customs, Culture and all abouts in Urdu and English.


ہمارے ہیرو کون ہیں؟

Aug 30, 2009

سفیر یاؤ جنگ

وزیری پٹھانوں کے مرشد اعلیٰ حضرت سلطان باہو ہیں۔ اب بھی یہ ان کے سالانہ عرس پر ہزاروں کی تعداد میں گڑھ مہا راجہ میں جمع ہوتے ہیں۔ حضرت سلطان باہو کے خانوادہ کے ایک درخشندہ ستارے حضرت غلام دستگیر تھے‘ جن کا سید یوسف الگیلانی المعروف پیر صاحب آف وانا کے ساتھ قریبی تعلق پیدا ہو گیا تھا اور ان کی محبت میں انہوں نے اپنے تمام وزیری مریدین سید یوسف الگیلانی کے حوالے کر دیئے تھے۔ یہ حضرت یوسف الگیلانی تھے جنہوں نے جہاد کشمیر پر نوابزادہ لیاقت علی خان کو اکسایا تھا۔ حضرت یوسف الگیلانی کے حکم پر وزیری پٹھان جہاد کے لئے کشمیر روانہ ہوئے۔ سید یوسف الگیلانی ہی وزیری لشکر کے سربراہ اعلیٰ مقرر ہوئے‘ جبکہ سلطان العصر حضرت غلام دستگیر کو انہوں نے اپنا نائب مقرر کیا۔ حضرت غلام دستگیر ہمہ وقت وزیری لشکر کے ساتھ رہے ‘ جبکہ حضرت یوسف الگیلانی کا ہیڈکوارٹر ایبٹ آباد میں تھا۔ نوابزادہ لیاقت علی خان نے میجر (ر) خورشید انور کو لشکر کا کمانڈر مقرر کیا۔ برگیڈیئر (بعد میں لیفٹیننٹ جنرل) بختیار رانا کو افواج پاکستان کا رابطہ افسر مقرر کیا گیا۔ جہاد کشمیر کی راہنمائی کے سلسلے میں حضرت یوسف الگیلانی کو پاکستانی افواج میں لیفٹیننٹ کرنل کا اعزازی عہدہ دیا گیا‘ جبکہ حضرت غلام دستگیر کو '' فخر کشمیر'' کے خطاب سے نوازا گیا۔

جہاد کشمیر کے جذبے میں سرشار قبائلی مجاہدین 25 اکتوبر 1947ء کی شام کو بارہ مولا پہنچ گئے تھے اور وہ چند گھنٹوں میں سری نگر پہنچ سکتے تھے۔ اگر ان کو ایسے کرنے دیا جاتا تو پھر ان کو شہر سے نکالنا ناممکن ہو جاتا اور بھارتی فوج 27 اکتوبر کی صبح کو بڈگام کے ہوائی اڈے پر اتر نہ سکتی۔ مگر مجاہدین کے لشکر کو میجر (ر) خورشید انور نے آگے بڑھنے سے روک دیا کیونکہ مجاہدین معاہدہ کے مطابق سری نگر کا خزانہ لوٹنا چاہتے تھے‘ لیکن میجر خورشید انور اس کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ چنانچہ اسی گفت و شنید میں نہایت ہی اہم دن ضائع ہوگئے حتیٰ کہ بھارتی فوج سری نگر میں اتر آئی۔ بعد میں کسی نے بھی ان میجر صاحب کی پرسش نہیں کی کہ فتح کشمیر کے مقابلے میں اس خزانے کی آخر کیا اہمیت تھی؟ میجر (ر) خورشید انور نے مجاہدین کو بارہ مولا میں روکے رکھا کیونکہ اس کے ذمے سری نگر کو آزاد نہ کرانے کی ذمہ داری لگائی گئی تھی۔ دوسری طرف سازش کے تحت ۲۵ اکتوبر کو مہورا کا بجلی گھر اڑا کر سری نگر میں گھپ اندھیرا کروا دیا گیا تاکہ مہا راجہ کشمیر خوفزدہ ہو کے بھارت کی گود میں جا گرے۔ ادھر سرحد کا ہمارا اپنا انگریز گورنر سر جارج کننگھم ۲۲ اکتوبر کو بھارتی فوج کے انگریز کمانڈر انچیف سر راب لاکھارٹ کو خبر دے چکا تھا کہ قبائلی مجاہدین کشمیر پر حملہ کے لئے دریائے اٹک پار کر چکے ہیں۔ ایک ضمنی سازش کے تحت سیالکوٹ کے قادیانی ڈپٹی کمشنر ایم۔ ایم۔ احمد نے جموں کا محاذ کھلنے نہ دیا اور بقول جنرل اکبر خاں طارق ہم نے جموں کو چھوڑ دیا لیکن جموں نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا۔

کشمیر کو ہندوستان کے پنجے سے چھڑانے کا دوسرا سنہری موقع دسمبر 1948ء میں آیا۔ جب کہ افواج پاکستان کی اعلیٰ پلاننگ کے نتیجہ میں پونچھ میں ہندوستانی افواج پاکستان افواج کے نرغے میں آ گئی تھیں۔ پونچھ کے ایک طرف ایک گھنے جنگل میں پاکستان توپ خانے کا نصف حصہ چھپا ہوا تھا۔ جو سڑک پونچھ اور اس سے آگے جاتی تھی وہ مکمل طور پر پاکستانی فوج کی زد میں تھی۔ جب افواج پاکستان پونچھ پر حملہ آور ہوتی تو پونچھ میں مقیم ہندوستانی فوجوں کا دونوں اطراف سے رابطہ منقطع ہو جاتا۔

پاکستانی توپ خانہ ہندوستانی توپ خانے سے بدرجہ بہتر تھا۔ اس لئے ہندوستانی اس کی مزاحمت نہ کر سکتے۔ وقت کی کمی کے باعث انہیں کمک بھی نہ پہنچ سکتی۔ ان حالات میں ہندوستانی فوج ہتھیار ڈال دیتی یا تہس و نہس ہو جاتی اور پاکستانی افواج کے لئے سری نگر کی طرف پیش قدمی میں کوئی خاطر خواہ رکاوٹ باقی نہ رہتی۔

ہندوستان کی اعلیٰ فوجی کمان کو جونہی پاکستانی فوج کے اس متوقع حملہ کا پتہ چلا‘ اس نے فوراً اپنے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کو تمام صورت حال اور اس کے مضر اثرات سے آگاہ کر دیا۔ پنڈت نہرو نے اسی وقت برطانوی وزیراعظم‘ کلیمنٹ ایٹلی سے فون پر رابطہ قائم کیا اور ان پر زور دیا کہ پاکستان کو ہر قیمت پر اس حملے سے روکنا ہو گا‘ کیونکہ اتنے مختصر وقت میں ہندوستان کے لئے بذریعہ ہوائی جہاز بھی پونچھ کمک پہنچانا ممکن نہیں۔ اگر انہیں پاکستانی افواج سے ہزیمت اٹھانا پڑی تو وہ احتجاجاً دولت مشترکہ کی رکنیت چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے۔ اگر پاکستان کو اپنا حملہ منسوخ کرنے پر آمادہ کر لیا جائے اور ضلع پونچھ ہندوستان ہی کا حصہ رہے تو وہ یعنی پنڈت نہرو اگلے سال کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دے دیں گے۔ اس طفل تسلی پر ہمارے ممدوح نوابزادہ لیاقت علی خان‘ اپنے قادیانی وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان کے اصرار پر یہ حکم دینے پر راضی ہو گئے کہ پاکستانی افواج اگلے روز پونچھ پر حملہ آور نہ ہوں۔ یہ حکم ملنے پر پاکستانی ایریا کمانڈر میجر جنرل حمید پر غم و الم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اور وہ شکستہ دل ہو کر اپنے کمرے میں بند ہو گئے اور بعد میں افواج پاکستان سے استعفیٰ دے دیا۔ پاکستانی فیصلہ کن حملے کا خطرہ ٹلتے ہی پنڈت نہرو اپنے استصواب رائے کرانے کے وعدے سے منحرف ہو گئے اور مسئلہ کشمیر غیر معینہ عرصہ کے لئے معرض التواء میں ڈال دیا گیا۔ یہ اتنا بڑا قومی المیہ تھا کہ جس کی تلافی نہیں ہو سکتی تھی۔ پونچھ میں ہندوستانی افواج نے خود کو مضبوط کر لیا جبکہ پاکستان نے ایک نادر موقع کھو دیا‘ جو قوموں کی زندگی میں کبھی کبھار آتا ہے۔ (دیکھئے علامہ محمد اسد کی نئی اور آخری کتاب ’’محمد اسد بندہ صحرائی: خود نوشت سوانح عمری 1932ء تا 1992ئ‘‘ مرتبہ محمد اکرام چغتائی‘ لاہور 2009ئ)۔


قطب شاہی علوی کھوکھر    میاں محمد یعقوب علوی بیروٹوی    دیوال    ڈھرنال    اعوان پورہ    اللہ یار خان    یوسف جبریل    ڈھوک اعوان    ٹی سی ایس کورئیر    Awan and Other Tribes Population    سلطان بازید محمد    چھنی تاجہ ریحان    بیروٹ    کھودے    غلام مرتضٰی ملک شہید    حکیم احمد الدین    بھرپور    واصف علی واصف    خواجہ شمس الدین سیالوی    ابوالفضل کرم الدین دبیر    حافظ غلام احمد    حافظ محمد مقبول الرسول للہی    قاضی شمس الدین    حضرت سلطان باہو    بابر افتخار    دیگر مسلم قبائل    غلام نبی للہی    اولمپیئن ملک محمد نواز    میجر جنرل تجمل حسین ملک    مل اعوان    مکھڈ شریف    محمد حمید شاہد    عبدالستار علوی    خواجہ زین الدین    شور کوٹ    ملک منور خان نامزد نشان حیدر    جبی    غلام اللہ خان    محمد جمال الدین ملتانی    حفیظ ماہی    محمد یار فریدی    مرزا عبدالقادر بیدل    غازی سید سالار مسعود    خواجہ امیر احمد بسالوی    محمد اکرم نشان حیدر    سلطان غلام دستگیر فخر کشمیر    کندوال    گنگ اعوان    خادم حسین رضوی    احسان الحق قادری    گنگال اعوان    سید حامد سبزواری    ردھانی    ائیر مارشل نور خان    اعوان دوسروں کے نکتہ نظر سے    مرزا مظہر جان جاناں    تریڑ اعوان برادری    بھمب اعوان    یاسین ملک    بھون    سعد حسین رضوی    ملک میاں محمد    ملک المدرسین عطا محمد بندیالوی    دامن مہاڑ    قاضی سلطان محمود    قاضی نور عالم    تاریخ اعوان    حزیر اعوان    خواجہ فضل الدین کلیامی    بھاگوال    حافظ دوست محمد للہی    چاہ اگرال    ملک پور    اعوان شریف    بلال آباد    ڈیرۂ اعوان    نور سلطان القادری    سلطان ریاض الحسن    مجوکہ    میاں صاحب قصہ خوانی    ڈھوک بدہال    مرجان اعوان    ڈھوک بازا    راستی بی بی    انور بیگ اعوان    خواجہ احمد خان میروی    پنڈوال    شیر محمد اعوان    محمد علی مکھڈوی    مشعال ملک    اوچھالی    سیلواں    موڑہ گنگال    شیر شاہ اعوان وکٹوریہ کراس    اعوان کڑی    سلوئی شریف    غازی ممتاز قادری    ڈھوک گنگال    اعوان جینیاتی تھیوری        اعوان کلاں    میاں محمد جیون    گھلی اعوان    خواجہ شمس الدین سید پوری    محمد عبیداللہ علوی    احمد ندیم قاسمی    سولنگی اعوان